Thursday 7 March 2013

[karachi-Friends] ] پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست 1

Dear All,

 A worth reading insight into Karachi state of
affairs, by famous writer Masood Anwar.

                     Muhammad Javed Iqbal



----- Forwarded Message -----
From: Masood Anwar's Blog <comment-reply@wordpress.com>
To: javediqbalkaleem@yahoo.com
Sent: Thursday, 7 March 2013 4:37 PM
Subject: [New post] پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست 1

Masood Anwar posted: " مسعود انور www.masoodanwar.com پاکستان کے تین صوبوں میں امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ یہاں کے باسی بھی اب بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی یار دوست کو فون کریں اور اس کا فون بند ملے یا اٹینڈ نہ ہو تو دل میں ہزار وسوسے جنم"
Respond to this post by replying above this line

New post on Masood Anwar's Blog

پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست 1

by Masood Anwar
مسعود انور
http://www.masoodanwar.com
پاکستان کے تین صوبوں میں امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ یہاں کے باسی بھی اب بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ کسی یار دوست کو فون کریں اور اس کا فون بند ملے یا اٹینڈ نہ ہو تو دل میں ہزار وسوسے جنم لینے لگتے ہیں۔ بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم اور بھتے، دنیا کا کون سا سنگین جرم ہے جو یہاں پر نہیں ہے۔ دنیا کا کون سا مجرم ہے جس کو یہاں پر کھُل کھیلنے کی اجازت یا سہولت نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا بھر کے مجرموں کے لئے ایک آسان شکار گاہ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ چاہے یہ مجرم بلیو کالر ہوں یا وائٹ کالر۔
پریشانی کی بات یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں یہ سب ہورہا ہے۔ پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ جن اداروں یا افراد پر اس کو روکنے اور بیخ کنی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہی اس میں ملوث ہیں۔ جو افراد یا گروہ اس پر آہ و فغاں کرتے نظر آتے ہیں وہی اس میں شریک جرم ہیں۔ پاکستان عملا پولٹری فارم کی مرغیوں کے پنجرے کی صورت اختیار کرگیا ہے جس میں قصائی بلا جھجھک ہاتھ ڈال کر بلا خوف و خطر اپنی پسندیدہ مرغی کو نکال کر اس کے ساتھ من پسند سلوک کرتا ہے۔
آئیے سب سے پہلے تو دیکھتے ہیں کہ یہ مجرم کون ہیں اور پھر اس کے بعد سیکوریٹی کے ذمہ دار افراد یا اداروں کا ان کے ساتھ سمبندھ بھی دیکھتے ہیں۔سب سے پہلے کراچی سے شروع کرتے ہیں۔ کراچی میں دیکھنے میں تو دو قسم کے مجرم نظر آتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اسٹریٹ کرائم یا اغوا و کار چوری جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ دوسرے نمبر پر وہ مجرم ہیں جو دیکھنے میں سیاسی یا لسانی پارٹیوں کے ونگ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان گروہوں کو بھی دو مزید گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو ان سیاسی و لسانی پارٹیوں کے ونگ کے طور پر کام کررہے ہیں جو منظر عام پر ہیں، دوسرا گروہ وہ ہے جو عرف عام میں کالعدم تنظیموں کے ونگ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ دیکھنے میں یہ تینوں گروہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ بادی النظر میں تو آخری دو گروہ ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتے ہیں۔مگر کیا ایسا ہی ہے؟
جی نہیں یہ تینوں گروہ نہ تو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور نہ ہی ان کے مفاد کا آپس میں کوئی ٹکراو ہے۔ مجرموں کا پہلا گروہ جو اسٹریٹ کرائم، گاڑیوں کے چھیننے ، ڈاکے ڈالنے اور اغوا جیسی وارداتوں پر مشتمل ہے، کہیں سے بھی الگ حیثیت کا حامل ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی پارٹی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہی ان پارٹیوں کے مسلح ونگ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر پارٹی کے ڈسپلن میں ہوتے ہیںاور پارٹی کے حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں ان کا کیریئر بھی ختم ہوجاتا ہے اور اکثر صورت میں ان کی زندگی کا چراغ ہی گُل کردیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل میں مجرموں کے دو ہی گروپ ہیں ۔ ایک عام سیاسی پارٹیوں اور لسانی گروہوں کا مسلح ونگ اور دوسرا کالعدم تنظیموں کے مسلح جیالے۔
کراچی میں پانچ پارٹیاں یا لسانی جتھے ایسے ہیں جن کے پاس یہ مسلح جتھے موجود ہیں۔ اس میں متحدہ قومی مومنٹ، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، سنی تحریک اور جئے سندھ کے مختلف گروپ شامل ہیں۔ ایک زمانے میں یہ سہولت حقیقی کو بھی حاصل تھی مگر اب اس کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس میں سب سے زیادہ منظم حیثیت ایم کیو ایم کو حاصل ہے جبکہ باقی گروہ علاقائی حیثیت کے حامل ہیں۔ایم کیو ایم نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کے شہری علاقوں کی ایک ایک گلی تک منظم ہے۔ اس کے پاس نہ صرف کارروائی کے لئے ہر علاقے میں تربیت یافتہ مجرم میسر ہیں بلکہ اس کو مرکزی سطح پر اعلیٰ تکینیکی سہولیات بھی میسر ہیں۔ اس کے پاس ایک ایک گھر کا ڈیٹا موجو ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں خصوصا کراچی کی کس گلی یا کس گھر میں کون کون رہتا ہے ، اُن کی معاشی حیثیت کیا ہے اور سیاسی و مذہبی وابستگی کس کے ساتھ ہے۔ اعلیٰ تکینیکی سہولیات کی بناءپر اگر یہ چاہے تو کسی کا فون بھی بگ کرسکتی ہے اور ٹریکنگ ڈیوائس کی بناءپر کسی کی نقل و حرکت پر نظر بھی رکھ سکتی ہے۔ اس کو کمپیوٹر کے ہیکرز کی سہولیات بھی میسر ہیں جس کی بناءپر مطلوب شخص کی نجی مصروفیات پر اس کی گہری نگاہ ہو تی ہے۔ یہ مطلوب شخص کوئی سیاسی رہنما بھی ہوسکتا ہے، کاروباری فرد بھی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کوئی اہم اہلکار بھی۔
چونکہ ایم کیو ایم طویل عرصے سے حکومت میں شامل رہی ہے اور خصوصا اس کو کراچی و حیدرآباد کی بلدیہ پر مکمل طور پر گرفت رہی ، اس کی بناء پر اس کو اپنا جاسوسی کا نیٹ ورک مکمل طور پر پھیلانے میں زیادہ آسانی رہی۔ اس نے ہر سطح پر اپنے ہرکارے بھرتی کرادئے ہیں۔ یہ بائیس گریڈ سے لے کر بھنگی اور چپراسی کی سطح تک کے لوگ ہیں۔ اس وقت کراچی و حیدرآباد میں گھروں سے کچرا اکھٹا کرنے کا کام مکمل طور پر یونٹوں کے سپرد ہے۔ ان یونٹ انچارجوں نے افغان ہزارہ کے لوگوں کو نجی طور پر بھرتی کیا ہوا ہے جو ہر گھر سے کچرا اکھٹا کرتے ہیں۔ یہ کچرا ری سائیکل کرکے بیچ بھی دیا جاتا ہے اور اس کے عوض ہر گھر سے معقول رقم بھی وصول کی جاتی ہے۔ ہر گھر سے یہ کچرا اکھٹا کرنے والے ہرکارے ایم کیو ایم کی بہترین آنکھیں ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہر علاقے کا حفاظتی نظام ہے۔ ڈاکوں اور امن وامان کی خراب صورتحال کی بناءپر اس وقت پورے کراچی میں ہر گلی میں بیریئر بھی لگے ہوئے ہیں اور گارڈ بھی کھڑے ہیں۔ یہ گارڈ بھی ایم کیو ایم کی آنکھ اور کان ہیں۔ یہ یونٹ انچارجوں کو مطلوبہ فرد پر آنکھ رکھنے اور اس کی معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔تیسرے نمبر پر کیبل آپریٹرز ہیں۔ گھروں کو کیبل کی فراہمی کا ٹھیکہ بھی یا تو ایم کیو ایم کے متعلقہ یونٹ انچارجوں کے پاس ہے یا پھر ان کے منظور کردہ افراد کے پاس ۔ کیبل فراہم کرنے والے یہ افراد بھی مطلوب افراد کے بارے میں جاسوسی کرنے میں سب سے زیادہ معاون ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کا بہانہ بناکر پورے کراچی میں خفیہ کیمروں کا نیٹ ورک بچھادیا گیا ہے۔ جس کا دیکھنے میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تو سوک سینٹر کراچی میں ہے مگر حیرت انگیز طور پر یہ نہ تو کراچی کی پولیس کے زیر تحت ہے اور نہ رینجرز کے جو علاقے میں امن و امان کے ذمہ دار ہیں۔ بلکہ اس کا براہ راست سیٹلائٹ رابطہ امریکا میں موجود اس کو نصب کرنے والی فرم کے ساتھ ہے۔ اس طرح کراچی میں ایک ایک ذرّے کی نقل و حرکت بھی اب پراسرار افراد کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے۔اس وقت سندھ کے شہری علاقوں خصوصا کراچی میں جاسوسی کا جو زبردست نیٹ ورک ہے وہ تو اسرائیل کے اندر بھی موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ایم کیوایم کو جنوبی افریقہ میں قائم انڈر ورلڈ کی براہ راست معاونت بھی حاصل ہے۔ یہیں سے ایم کیوایم کو اسلحہ کی فراہی کے انتظامات ہوتے ہیں اور یہیں سے مسلح افراد کنٹرول بھی ہوتے ہیں اور ان کو ٹاسک دئے جاتے ہیں۔ یہیں سے ان کی تعیناتی ہوتی ہے اور خراب صورتحال کی بناءپر ان کو بیرون ملک فرار میں مدد دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ریاست کے اندر ریاست کی کہانی ابھی جاری ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی خبردار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کوہشیار رکھئے۔ ہشیار باش۔
Comment    See all comments    Like
Unsubscribe or change your email settings at Manage Subscriptions.
Thanks for flying with WordPress.com



--
شما به این دلیل این پیام را دریافت کرده‌اید که در گروه Google Groups "Clarion Call" مشترک شده‌اید.
برای لغو اشتراک در این گروه و قطع دریافت ایمیل از آن، ایمیلی به clarion-call و unsubscribe@googlegroups.com ارسال کنید.
برای گزینه‌های بیشتر، از https://groups.google.com/groups/opt_out دیدن کنید.
 
 



--


Visit my Blog for a no nonsense, serious discussion of problems facing the humanity:
https://sites.google.com/site/yaqeenweb/home/


--
--
Be Carefull in Islamic Discussions;
Disrespect (of Ambiyaa, Sahabaa, Oliyaa, and Ulamaa) is an INSTANT BAN
Abuse of any kind (to the Group, or it's Members) shall not be tolerated
SPAM, Advertisement, and Adult messages are NOT allowed
This is not Dating / Love Group, Sending PM's to members will be an illegal act.
 
 
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Karachi-Friends" group.
To post to this group, send email to karachi-Friends@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Karachi-Friends" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
 
 

No comments:

Post a Comment