Monday 12 September 2011

[PF:166547] مثبت سوچ کا فقدان

مثبت سوچ کا فقدان

انسان بذات خود نیکی کے برعکس بدی کی طرف جتنی جلد راغب ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح اسے دوسروں کے عیب، برائیاں، کوتاہیاں، غلطیاں اور برے کام بھی اچھے کاموں سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اور جب ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کے عیب تلاش کرنے لگے تو پھر معاشرے میں محبت و بھائی چارہ کے بجائے باہمی نفرت پنپتی ہےاور کچھ ہی عرصے بعد ہر فرد کے دل و دماغ میں اپنے ارد گرد موجود انسانوں سے بغض کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہوتی ہے چاہے وہ اس کا پڑوسی ہو، محلہ کمیٹی یا مسجد کا امام ہو، ریاست کا سربراہ یا فوج کا سپہ سالار ہی کیوں نہ ہو۔

ابتداء میں اس ناپسندیدگی کے اثرات صرف بے اعتمادی تک محدود ہوتے ہیں لیکن بڑھتے بڑھتے بات نفرت تک جا پہنچتی ہے۔ پھر اچھے کاموں کی تعریف بھی ناپید ہوجاتی ہے۔ معاشرہ اچھے لوگوں کو بھی گندے سسٹم کا حصہ گردانتے ہوئے ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنے سے ہچکچاتا ہیں۔

کچھ یہی سلوک ہمارے ریاستی ستونوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ حکومت، افواج، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ نے جتنے برے کام کیے اور کررہے ہیں اس پر ہم سب نے یکجان ہو کر شدید تنقید کے ذریعے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس اظہار نفرت میں ہم یہ سوچنا بھی بھول گئے کہ آیا ان اداروں میں کوئی کام اچھا بھی ہورہا ہے؟ اور بالفرض محال کسی شخص یا ادارے نے کوئی اچھا کام کیا بھی تو ہم نے اس کی تعریف کے بجائے چپ سادھ لی۔ اب اسے دیانتدار افراد کی حوصلہ شکنی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کاموں کی جانب کوئی نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا جبکہ وہی شخص یا اداراہ اگر رائی برابر بھی غلط کام کرے تو اسے پہاڑ بناتے دیر نہیں لگتی۔

No comments:

Post a Comment