Friday 23 December 2011

[karachi-Friends] FW: Periodical Urdu Mails (4)-Just For a change

In the name of Allah, the Most-Merciful, the All-Compassionate

 

"May the Peace and Blessings of Allah be Upon You"

 

Bismillah Walhamdulillah Was Salaatu Was Salaam 'ala Rasulillah

                                 

ٹرکوں کے پیچھے لکھی عبارتیں۔۔ ہنسنے ہنسانے کا مفت ٹانک


جی ہاں آپ درست سمجھے۔ یہ پاکستان کی چوڑی چکلی سڑکوں پر دوڑتے ٹرکوں اور رکشا، ٹیکسی کے پیچھے لکھی عبارتوں کی چاشنی ہے ۔ ڈیپر،موڑ، پانا، ہوا، پانی، تیل، بریک، اسپیڈ، اوور ٹیک، ہائی وے اور ۔۔او چھو۔۔و۔۔۔و۔۔ٹ۔۔ٹے کے نعرے، ڈیزل کی بو۔۔ اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہے۔ مگر نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب۔  آیئے آج اسی دنیاکی سیر کی جائے۔آدمی آدمی کو ڈنس' ریا' ہے، سانپ بیٹھا ہنس 'ریا' ہے ۔ ' ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے، موت سے بچ نکلا تو سینٹرل جیل ہے'۔ 'یہ جینا بھی کیا جینا ہے، جہلم کے آگے دینہ ہے'۔ 'ماں کی دعا اے سی کی ہوا'۔ 'نظروں نے نظروں میں نظروں سے کہا۔۔ نظریں نہ ملانظروں کی قسم۔۔ نظروں سے نظر لگ جائے گی' ۔۔۔۔

ذرائع آمد ورفت اور خاص کر ٹرک کے پیچھے لکھی دلچسپ عبارتیں ۔۔ جسے ڈرائیور استاد اوران کا 'چھوٹا' یعنی کلینر 'شاعری' کہتے ہیں۔۔ بہت دفعہ آپ کی نظر وں سے گزری ہوگی۔ دراصل یہ عبارتیں ٹرک کے اندر بیٹھے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ جبکہ ڈرائیورز کا اپنا کہنا یہ ہے کہ ان کی لائف گھر میں کم اور سڑکوں پر زیادہ گزرتی ہے۔  بس سفر ہی سفر۔۔ اور تھکن ہی تھکن۔۔ ایسے میں اگر ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو اپنے جذبات سے آگاہ کرے بھی تو کیسے۔۔۔ پھر چلتے چلتے دوسروں کو ہنسنے اور خود کو ہنسانے کے لئے یہ عبارتیں مفت کا ٹانک ہیں۔

سچ ہے ۔۔ سواریوں کے پیچھے کوئی ایک جذبہ تحریر نہیں ہوتا بلکہ نصیحت، ڈرائیور کی 'پرسنل لائف'، خیر و بھلائی، تقدیر، مذہبی لگاؤ، ماں کی محبت، جذبہ حب الوطنی، رومانس غرض کہ زندگی کا ہر انگ ان عبارتوں میں ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اور عبارتیں ملاحظہ کیجئے:

'عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلانا چھوڑ دو'، 'بریک بے وفاہے تو رکشا چلانا چھوڑ دو'۔  'محبت کو زمانے میں گل نایاب کہتے ہیں، ہم آپ کو بیٹھنے سے پہلے آداب کہتے ہیں'، ' تم خود کوکترینہ سمجھتی ہو تو کوئی غم نہیں۔۔ ذرا غور سے دیکھو ہم بھی سلمان سے کم نہیں'۔ ظالم پلٹ کر دیکھ، تمنا ہم بھی رکھتے ہیں'، تم اگر کار رکھتی ہو تو رکشا ہم بھی رکھتے ہیں'، 'قتل کرنا ہے تو نظر سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے، سفر کرنا ہے تو رکشہ میں کر کار میں کیا رکھا ہے؛ ۔۔ پورٹ پر رہتے ہیں، سہراب گوٹھ میں سوتے ہیں، جب تمہاری یاد آتی ہے تو جی بھر کے روتے ہیں'۔ 'اے راکٹ تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا، جیسا بھی کھڈا آئے ہنس کے گزارنا'۔ 'چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول، جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول ۔'

'سڑک سے دوستی ہے سفر سے یاری ہے، دیکھ تو اے دوست کیا زندگی ہماری ہے'۔ 'کسی نے گھر آکر لوٹا کسی نے گھر بلا کر لوٹا، جو دشمنی سے نہ لوٹ سکا اس نے اپنا بنا کر لوٹا'۔ 'اتنا دبلا ہو گیا ہوں صنم تیری جدائی سے،  کہ کٹھمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں چارپائی سے'۔ 'میرے دل پر دکھوں کی ریل گاڑی جاری ہے، خوشیوں کا ٹکٹ نہیں ملتا، غموں کی بکنگ جاری ہے'۔ 'جاپان سے آئی ہوں سوزوکی میرا نام ۔  دن بھر سامان لانا لے جانا ہے میرا کام'۔ 'قسمت آزما چکا، مقدر آزما رہا ہوں'۔ 'تیرے غصے میں اتنا سرور ہے، پیار میں کیا ہو گا، تیری سادگی میں حسن ہے، سنگھار میں کیا ہو گا'۔  'گھر میں رونق بچوں سے، سڑکوں پر رونق بچوں سے'۔ ' کبھی سائیڈ سے آتی ہو کبھی ہارن دیتی ہو، میری جان یہ بتاؤ مجھے یوں کیوں ستاتی ہو' ۔

اگر دل پتنگ ہوتا تو اڑاتا غم کی ڈور سے، لگاتا عشق کے پیچے کٹواتا حسن والوں سے ۔  کون کہتا ہے ملاقات نہیں ہوتا، ملاقات تو ہوتا ہے مگر بات نہیں ہوتا۔  ہم نے انہیں پھول پھینکا دل بھی ساتھ تھا، انہوں نے ہم کو پھول پھینکا گملا بھی ساتھ تھا ۔ شیلا کی جوانی ہمارے کس کام کی، وہ تو بدنام ہو گئی ہے تم لکھو ایک کہانی میرے نام کی ۔ جن کے چہروں پر نقاب ہوتے ہیں، ان کے جرم بے حساب ہوتے ہیں۔ یار کو آزما کے دیکھ لیا، پارٹی میں بلا کر دیکھ لیا، یہ جراثیم عشق کے مرتے نہیں انجکشن لگا کے دیکھ لیا۔  کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مر جاؤں گا،رکشہ والا ہوں کٹ مار کے نکل جاؤں گا ۔ تپش سورج کی ہوتی ہے جلنا پیٹرول کو ہوتا ہے، قصور سوار ی کا ہوتا ہے پٹنا ڈرائیور کو ہوتا ہے ۔  اس کے رخسار سے ٹپکتے ہوئے آنسو، توبہ میں نے شعلوں سے لپٹتے شبنم دیکھی ۔

 

ایک جملے میں داستان جس میں فلمی دنیا کے اثرات نمایاں

 

وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا ۔ نہ صنم، نہ غم ۔ امریکا حیران، جاپان پریشان، میڈان پاکستان ۔ دل جلے، صنم بے وفا، منی بدنام ہوئی، خان تیرے لئے۔ پھر وہی راستے جہاں سے گزرے تھے ہم ۔ پریشان نہ تھیویں میں ول آساں(پریشان مت ہونا میں پھر آؤں گا )۔ پاک فوج کو سلام، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔ باجی انتظار کا شکریہ۔ کوئی دیکھ کر جل گیا اورکسی نے دعا دی ۔ روک مت جانے دے۔ دل برائے فروخت قیمت ایک مسکراہٹ، چل پگلی صنم کے شہر، صدقے جاؤں پر کام نہ آؤں ۔

 

دوسرے ڈرائیور بھائی کیلئے کوئی اشارہ

 

دیکھ ضرور مگر پیار سے ۔  ہارن دے رستہ لے ۔ جلو مت کالے ہو جاؤ گئے ۔ ہمت ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر ۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ تولنگ جا ساڈھی خیر ہے ۔  ساڈھے پچھے آویں ذرا سوچ کے (میرے پیچھے آنا ذرا سوچ کے)۔ نواں آیاں سونیاں(نیا آیا ہے ڈارلنگ)۔ زندہ رہنے کیلئے فاصلہ رکھنا ضروری ہے ۔ فاص لہ رکھیے اس سے قبل کے ہماری منزل ایک ہو جائے۔ پہاڑوں کا شہزادہ، فخر ملتان ۔ گڈی جاندی ہے چھلانگا ماردی۔ شرارتی لوگوں کے لئے سزا کا خاص انتظام ہے ۔

 

مذہبی قربت اور نصیحت

 

نماز پڑھئے۔۔  اس سے قبل کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ تعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیں ۔ اپنی گناہوں کی معافی مانگ لیجئے ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر ہو ۔ نصیب سے زیادہ نہیں، وقت سے پہلے نہیں۔ نیک نگاہوں کو سلام ۔ دعوت تبلیغ زندہ باد۔ داتا کی دیوانی۔  میں نوکر بری سرکار دا ۔ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں۔ جھولے لعل۔  کبھی آؤ ناں ہمارے شہر۔ پیار کرنا صحت کے لئے مضر ہے،

 

 وزارت عشق حکومت پاکستان 

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

                                                          

 انسانی تاریخ میں گناہ کی معنویت اور اس کی شدت

شاہ نواز فاروقی

-انسان کی زندگی کا تصور گناہ کے بغیر محال ہے لیکن اس کے باوجود انسانی تاریخ میں گناہ کی معنویت اور اس کی شدت کو کم ہی سمجھا گیا ہے۔ بلکہ بعض مذاہب کی تاریخ میں گناہ کا تصور اتنا مسخ ہوگیا کہ اس سے ان مذاہب کا تہذیبی توازن بگڑ کر رہ گیا۔ عیسائیت اور ہندوازم کی تاریخ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ عیسائیت کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی گناہ کار ہے۔ یعنی انسانی فطرت کا خمیر گناہ سے اٹھا ہے۔ چنانچہ اس کی نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا رسول اور نعوذ باللہ ان کا بیٹا تسلیم کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانوں کو ان کے ازلی گناہ سے نجات دلانے کے لیے صلیب پہ چڑھنا قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا پیغمبر اور خدا کا بیٹا سمجھے بغیر انسان اپنے گناہوں سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ عیسائیت کے اس عقیدے کا ہبوط آدم کے واقعے سے گہرا تعلق ہی، عیسائیت کا تصور یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اماں حوا کے کہنے پر گناہ کا ارتکاب کیا، چنانچہ عیسائیت کی تاریخ میں عورت کو تمام برائیوں کی جڑ اور گناہ پر اکسانے والی سمجھا گیا ہے۔ ہندو ازم میں گناہ اور پیدائش کے چکر میں ایک باہمی ربط ہے۔ ہندو ازم کے مطابق انسان کا ہر جنم اس کی پچھلی زندگی کے کرم یا عمل کا حاصل ہوتا ہے۔ انسان کے کرم اچھے نہ ہوں تو وہ اگلے جنم میں کتا، بلی یا کوئی اور حیوان بن کر پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ الایہ کہ انسان ایسے کرم کرے جو اسے "موکش" یا زندگی اور موت کے سلسلے سے "نجات" دلادیں۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور یہ اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جہاں تک گناہ کا تعلق ہے اسلام گناہ کے دو بنیادی سرچشموں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی شیطان اور نفس انسانی۔ بدقسمتی سے ہمارے علما کے یہاں گناہ کا بیان اور اس کی مذمت تو بہت ہے مگر اس کی تفہیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ گناہ کی ہولناکی کیا ہے اور اس کی ہلاکت آفرینی کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے۔ گناہ کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ گناہ حکم الٰہی کا انکار یا انحراف ہے ، اس کی ہولناکی یہ ہے کہ انسان نے اپنے خالق ، اپنے مالک اور اپنے رازق کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں خالق اور مخلوق، مالک اور محکوم اور رب اور مربوب کا تعلق بدل کر رہ گیا۔ ظاہر ہے خدا کے حکم کا انکار مجدد یا Abstract نہیں ہوتا۔ انسان خدا کے حکم کا انکار کرتا ہے اور اس کے مقابلے پر اپنی رائے اور اپناحکم لاتا ہے۔ اس طرح وہ خدا کی خدائی کے مقابلے پر اپنی خدائی کا اعلان کرتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ خدا کا حکم محض خدا کا حکم نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم خدا کے علم اور خدا کی حکمت کا مظہر ہے۔ چنانچہ خدا کے حکم سے انحراف کرنے والا دراصل خدا کے علم اور خدا کی حکمت کا بھی انکار کرتا ہے۔ ہماری مذہبی دانش کی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ مذہب کی پابندیوں کو ہمیشہ ایک ایسے جبر کی صورت میں بیان کرتی ہے جو انسانوں پر خارج سے عائد کردیا گیا ہے۔ حالانکہ مذہب انسان کو پابند کرتا ہے تاکہ وہ اسے اس کے باطن میں آزاد کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کی پابندیاں ہی انسان کو یہ مواقع فراہم کرتی ہیںکہ وہ اپنے امکانات کو تلاش کرے اور انہیں بروئے کار لائے۔ اس کے مقابلے پر جس چیز کو انسان کی آزادی کا نام دیا گیا ہے وہ انسان کی غلامی کے سلسلے کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ خدائی احکامات کے دائرے کے باہر شیطان اور نفس کی غلامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خدا کے حکم کا انکار یا اس سے انحراف انسان کی اپنے خلاف ایک بڑی سازش ہے۔ انسان کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ انسان مظہر حق ہے اور اس کے وجود کے مرکز میں حق کا چراغ روشن ہے۔ گناہ کی ہولناکی یہ ہے کہ وہ اس چراغ کو مدھم کردیتا ہے یہاں تک کہ گناہ اس چراغ کو بجھا دیتا ہے اور انسان مرتبہ انسانیت سے گر جاتا ہے۔ مذہب انسان کو ایک اکائی یا Unitied whole بناتا ہے اور چاہتا ہے کہ انسان کے وجود کا صرف ایک مرکز ہو۔ نیکی کا مرکز، تاکہ انسان تضادات اور نفاق سے پاک رہ سکے لیکن گناہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسان کے باطن میں ایک نیا مرکز پیدا کرکے انسان کے باطن اور اس کی شخصیت کو دونیم کردیتا ہے۔ ایک سطح پر یہ تضاد کی حالت ہی، نفاق کی حالت ہے۔ دوسری سطح پر اس حالت کا مفہوم یہ ہیے کہ باطل حق کا ہم پلہ بن گیا ہے اور اسے انسانی زندگی پر حق کی طرح کا تصرف حاصل ہوگیا ہے۔ اسلام اعلان کرتا ہے کہ باقی رہ جانے والی چیز صرف "نیکیاں" ہیں۔ اس کا مطلب صرف نیکیوں سے تشکیل پانے والی شخصیت ہی "حقیقی شخصیت" ہے۔ گناہ باطل کی ایک صورت ہے اور باطل کا کوئی حقیقی وجود نہیں چنانچہ انسانی شخصیت جتنی گناہ کے زیر اثر جاتی ہے اتنی ہی "مصنوعی" ہوجاتی ہے۔ انسان کی زندگی دو اثرات کے زیر اثر ہے۔ ایک رحمانی اثرات اور دوسرے شیطانی اثرات۔ انسان کے نفس میں خیر غالب ہوتا ہے تو انسان رحمانی الہامات کو قبول کرنے کے زیادہ قابل ہوجاتا ہے لیکن گناہ کا اثر نفس کی آلودگی کو بڑھا دیتا ہے اور پھر انسان کا نفس شیطانی الہامات کو زیادہ قبول کرنے لگتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر انسان گناہ کرتا ہی کیوں ہی؟ اس سوال کا ایک معروف جواب یہ ہے کہ شیطان انسان کو بہکاتا ہے اور انسان سے گناہ کا صدور ہوتا ہے۔ اس سوال کا دوسرا معروف جواب یہ ہے کہ انسان کا نفس انسان کو گناہ کرنے پر مائل کرتا ہے۔ یہ گناہ کی حقیقت کو بیان کرنے والے دو سرسری جواب ہیں۔ اس سوال کا اصل جواب یہ ہے کہ انسان گناہ اس وقت کرتا ہے جب وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گناہ کی اصل وجہ انسان کا "نسیان" ہے۔ جنت میں حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا سے گناہ اس لیے ہوا کہ وہ ابلیس کی باتوں میںآکر خدا کے حکم کو بھول گئے۔ نفس بھی اپنی ترغیبات اور تحریصات کا ہدف انسان کے حافظے کو بناتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حافظے سے خدا کی یاد محو ہوجائے۔ مذہب نسیان کے خلاف جنگ کرنے والی سب سے بڑی قوت ہے۔ مذہب عقائد، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کے ذریعے خدا کی یاد کو قوی بناتا ہے۔ مذہب چاہتا ہے کہ انسان کے ہر سال پر خدا کی یاد کا غلبہ ہو۔ اس سے اگلے مرحلے پر انسان کے ہر مہینے کے پیشتر حصے پر خدا کی یاد کا سایہ ہو۔ یہاں تک کہ انسان خدا کو ہر لمحے یاد رکھنے والا بن جائے اور جب انسان ہر لمحے خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے تو پھر اس سے گناہ کا صدور ممکن ہی نہیں رہتا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسان سے گناہ ہوجائے تو انسان کیا کری؟ گناہ پر گفتگو کا یہ وہ مرحلہ ہے جہاں توبہ کا تصور سامنے آتا ہے۔ توبہ گناہ کی تاریکی میں طلوع ہونے والے سورج کی طرح ہے۔ جس طرح سورج رات کی تاریکی کو کھاجاتا ہے اس طرح توبہ گناہ کی سیاہی کو نگل جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچی توبہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ اس کے سامنے گناہوں کا سمندر بھی کچھ نہیں۔ توبہ اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انسان گناہ نہ کرتے تو وہ انہیں فنا کردیتا اور ایسے انسان پیدا کرتا جو گناہ کرتے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی انتہا کو سامنے لاتی ہے اور دوسری جانب عبد کی عبدیت کی انتہا کو نمایاں کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی انتہا یہ ہے کہ انسان اگر سمندر کے قطروں سے بھی زیادہ گناہ کرے تو بھی خدا اسے معاف کرسکتا ہے۔ انسانیت کی عبدیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ لاکھوں گناہ کرکے بھی خدا کو نہیں بھولتا اور اسی کی طرف پلٹتا ہی، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ صرف وہی ہے جس کی طرف پلٹا جاسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو سچی توبہ کے تین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں۔ ایک گناہ کا سچا اعتراف، دوسرا پھر گناہ نہ کرنے کا سچا عزم، تیسرا یہ یقین کامل کہ خدا کفر اور مشرک کے سوا ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ ہماری مذہبی دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گناہ کے حوالے سے "خوفِ خدا" کا جو تصور سامنے لاتی ہے اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ دانش خدا کے ہارے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔ خدا کے خوف کا اصل پہلو یہ نہیں ہے کہ خدا ہماری گرفت کریگا اور ہمیں سزا کے طور پر جہنم میں ڈال دے گا بلکہ خدا کے خوف کا اصل تصور یہ ہے کہ ہمارا خدا ایک ایسا خدا ہے جو انسان سے 70 ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور وہ ہمارا ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ اپنے خدا کے حکم کا انکار یا اس سے انحراف کتنی ڈرا دینے والی بات ہے۔ ہماری مذہبی روایت میں یہی خوفِ خدا کا اصل مفہوم ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

Jang , Friday, December 23, 2011

 

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment