Monday 4 November 2013

[karachi-Friends] Fwd: { Struggle For Change } US new credit limit. Siren of war




Visit my Blogs for a no nonsense, serious discussion of problems facing the humanity: 


---------- Forwarded message ----------
From: Javed Iqbal Kaleem <javediqbalkaleem@yahoo.com>
Date: 2013/11/4
Subject: { Struggle For Change } US new credit limit. Siren of war
To: Clarion Call <Clarion_call@googlegroups.com>, Javed Iqbal Kaleem <javediqbalkaleem@yahoogroups.com>


 


 


Think & Ponder brothers and sisters.
Masood Anwar posted: "امریکا کے قرض کی حد میں اضافہ۔ خطرے کی گھنٹی www.masoodanwar.com masoodsahab@yahoo.com مسعود انور دیکھنے میں یہ ایک معمول کی بات لگتی ہے ۔ امریکی حکومت کے قرض حاصل کرنے کی حد فروری 2013 میں ختم ہوگئی تھی۔ اس کے بعدبھی امریکی حکومت قرض حاصل کرت"
Respond to this post by replying above this line

New post on Masood Anwar's Blog

US new credit limit. Siren of war

by Masood Anwar
امریکا کے قرض کی حد میں اضافہ۔ خطرے کی گھنٹی
مسعود انور
دیکھنے میں یہ ایک معمول کی بات لگتی ہے ۔ امریکی حکومت کے قرض حاصل کرنے کی حد فروری 2013 میں ختم ہوگئی تھی۔ اس کے بعدبھی امریکی حکومت قرض حاصل کرتی رہی۔ گو کہ اس کے لیے حکومت کے پاس درکار کانگریس کی منظوری نہیں تھی مگر اوباما حکومت نے اس قرض کے حصول کے لیے اپنے خصوصی اختیارات کا بھرپور استعمال کیا اور اس دوران امریکی قوم کو مزید تین سو ارب ڈالر کے قرضے میں جکڑ دیا۔ سترہ اکتوبر ، امریکی حکومت کے پاس سود کی ادائیگی کے لیے آخری تاریخ تھی اور اس بھاری بھرکم سود کی ادائیگی کے لیے امریکی حکومت کو مزید بھاری قرض درکار تھا جس کی منظوری امریکی کانگریس و سینیٹ سے ضروری تھی۔ اگر یہ منظوری نہ مل پاتی تو امریکی حکومت نادہندہ قرار پاتی اور بینکوں کو قانون کی رو سے یہ حق حاصل تھا کہ وہ رہن رکھے گئے امریکی اثاثہ جات کو قرق کردیں۔تاہم امریکی کانگریس اور سینیٹ نے سولہ اکتوبر کی شام ہی قرض کی حد میں اضافے کی منظوری دے دی۔ امریکی صدر اوباما نے بھی فوری طور پر نصف شب گذرنے کے باوجود اس بل پر دستخط کرکے اسے قانون کا درجہ دے دیا اور اس طرح امریکی کانگریس، سینیٹ اور صدر نے آخری لمحے میں امریکی حکومت و قوم کو نادہندہ قرار دینے سے بچالیا۔
یہ سب کچھ دیکھنے میں بالکل معمول کی بات لگتی ہے۔ ایک حکومتی کارروائی جس سے پوری دنیا کو محض اتنی ہی دلچسپی تھی کہ امریکی نادہندگی سے بچنے یا دوسرے الفاظ میں بینکاروں کے تنبیہ کو قبول کرنے میں کتنی دیر لگاتے ہیں۔توقعات کے عین مطابق ، امریکی حکومت نے بینکاروں کے سامنے آخری لمحے میں گھٹنے ٹیک دیے۔ لیجئے ، میچ کی آخری گیند پر فیصلہ ہوگیا۔ مگر یہ سب کچھ اتنا معمول کے مطابق بھی نہیں تھا۔ تفصیلات پر ذرا غور کریں تو علم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بہت کچھ معمول سے ہٹ کر بھی ہوا ہے۔امریکی حکومت پر قرض حاصل کرنے کی حد کا اطلاق 1940 میں ہوا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک مجموعی طور پر 95 مرتبہ اس حد میں اضافہ کیا جاچکا ہے۔ مگر ہر دفعہ جب بھی قرض کی حد میں اضافہ کیا گیا تو نئی حد ضرور مقرر کی گئی۔ اس کے نتیجے میں امریکی صدور کو بار بار اس حد میں اضافے کے لیے پارلیمنٹ سے رسمی منظوری کے لیے جانا پڑا مگر ان میں سے کسی کو بھی لامحدود قرض حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مثلا سب سے زیادہ مرتبہ یعنی 18 بار ریگن کو قرض کی اس حد میں منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے پاس جانا پڑا۔خود اوباما کو اپنے پہلے دور اقتدار میں چھ مرتبہ اسی مرحلے سے گذرنا پڑا۔ اس مرتبہ بھی یہ تو سب کو ہی معلوم تھا کہ قرض کی حد میں اضافہ ہوگا مگر ماہرین کی آنکھیں قرض کی نئی حد پر لگی ہوئی تھیں کہ اسی سے دنیا میں جنگوں کے آئندہ نقشے کی کچھ نشاندہی ہوتی۔ اگر قرض کی یہ حد بہت زیادہ ہوتی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ سال میں اوباما حکومت بھاری بھرکم اخراجات کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور اگر یہ معمول کے مطابق ہوتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ ایک برس دنیا میں کسی نئی جنگ کا اندیشہ نہیں ہے۔
مگر امریکی کانگریس اور سینیٹ نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی حکومت کو مزید قرض حاصل کرنے کی اجازت تو دے دی ہے مگر اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ صرف یہ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا گیا ہے کہ آئندہ فروری میں کانگریس اس پر دوبارہ غور کرے گی۔ یہیں سے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت اوباما کے پاس لامحدود اخراجات کے اختیارات ہیں۔ اوباما حکومت دنیا میں کسی بھی جگہ نیا میدان جنگ کھولنے کی صورت میں اخراجات کے حوالے سے کانگریس و سینیٹ کی محتاج نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکی سینیٹ و کانگریس میں ریپبلکن و ڈیموکریٹ سارے اراکین نے ہمیشہ وہی کیا ہے جو عالمی بینکاروں کی منشاء رہی ہے۔ پھر بھی اوباما حکومت کو ایک نئی بحث میں پڑنے سے بچالیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ تین ماہ دنیا کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس میں پتہ چل جائے گا کہ آخر اوباما حکومت کو قرض کی حد میں یہ غیر معمولی چھوٹ کیوں عنایت کی گئی ہے اور مین اسٹریم میڈیا اس کو کیوں نظر انداز کررہا ہے۔دنیا پر ایک شیطانی عالمی حکومت کی سازشیں کرنے والے عالمی بینکار بساط پر کون سی نئی چال چلنے جارہے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
Masood Anwar | نومبر 4, 2013 at 10:17 am | Tags: Masood Anwar, US new credit limit. Siren of war | Categories: Uncategorized | URL: http://wp.me/pLaBf-7X
Comment    See all comments    Like
Unsubscribe to no longer receive posts from Masood Anwar's Blog.
Change your email settings at Manage Subscriptions.
Trouble clicking? Copy and paste this URL into your browser:
http://masoodanwar.wordpress.com/2013/11/04/us-new-credit-limit-siren-of-war/
Thanks for flying with WordPress.com



__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (1)
Recent Activity:
.

__,_._,___

--
--
Be Carefull in Islamic Discussions;
Disrespect (of Ambiyaa, Sahabaa, Oliyaa, and Ulamaa) is an INSTANT BAN
Abuse of any kind (to the Group, or it's Members) shall not be tolerated
SPAM, Advertisement, and Adult messages are NOT allowed
This is not Dating / Love Group, Sending PM's to members will be an illegal act.
 
 
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Karachi-Friends" group.
To post to this group, send email to karachi-Friends@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Karachi-Friends" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.

No comments:

Post a Comment