Monday 10 June 2013

[karachi-Friends] ناٹو کے فوجی سازوسامان کی چوری




خبر آئی ہے کہ حیدرآباد کی پولیس نے کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناٹو فوج کی چوری
شدہ دو بکتر بند گاڑیاں برآمد کرکے ٹرالر ڈرائیور کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان بکتر گاڑیوں کی
کاغذات میں درج منزل کراچی تھی کہ راستے میں ہی ان فوجی گاڑیوں کو غائب کردیا گیا
تھا۔ہائی وے سے ہٹ کر ان گاڑیوں کو لے کر جانے والے ٹرالرڈرائیور سے جب بھتہ کی
متلاشی پولیس نے پوچھ گچھ کی تو پتا چلا کہ ان گاڑیوں کی اصل منزل کراچی نہیں کوئی اور
مقام ہے۔دراصل یہ گاڑیاں افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے پروگرام کے نتیجے میں
افغانستان سے واپس امریکا بھیجنے کے پروگرام کے ایک حصہ کے طور پر کراچی پہنچائی
جارہی تھیں۔ خبر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کارکردگی کے پس پشت کوئی اور مقصد
کارفرما نہیں ہے بلکہ اس کو محض حیدرآباد پولیس کی الٹرا اسمارٹ نیس قرار دیا جائے تو
زیادہ بہتر ہوگا۔

ناٹو فوج کو بھیجے جانے والے یا اس کے زیر استعمال سامان کی چوری کی نہ تو یہ پہلی
اطلاع ہے اور نہ آخری۔ دو سال پہلے کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ، اس طرح کے
ساڑھے چھ ہزار ٹرالر اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ، اس تعداد
میں مسلسل بھاری اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پہلے کراچی سے ناٹو کے لیے ٹریفک یکطرفہ تھا
مگر اب یہ دو طرفہ ہوچکا ہے۔ افغانستان سے اتحادی فوج میں کمی کرنے کی بناء پر ہلکا اور
بھاری سازوسامان واپس امریکا اور یورپ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ٹرانسپورٹیشن پر
اربوں ڈالر کے اخراجات آئیں گے۔ ناٹو قیادت نے یہ فوجی سازوسامان نہ تو افغانستان کو دینے
کی منظوری دی اور نہ ہی پاکستان کوعطا کرنے کی حامی بھری۔ افغانستان سے امریکی فوج
اسی طرح واپسی کررہی ہے جس طرح اس نے عراق سے کی۔ یعنی فوجی کنٹرول تو اسی کے
پاس رہے گا مگر میدان میں افغان فوجی مرنے کے لیے موجود ہوں گے۔ اب فوجی ضروریات
پوری کرنے کے لیے حامد کرزئی بھارت سے مذاکرات کررہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ
بھارت سے فوجی خریداری کا بل کون ادا کرے گا۔ ناٹو قیادت۔

دراصل میں صرف ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں اور وہ ہے اس فوجی سازوسامان
کی اہمیت۔ آپ کسی بڑی کنسٹرکشن سائٹ پر جائیے۔ جیسے کسی بڑے ڈیم کی تعمیر یا بلند و بالا
 عمارت کی تعمیر۔ ایسے پروجیکٹس میں مشینری کا غیر معمولی اور بڑے پیمانے پر استعمال
ہوتا ہے جو پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد کمپنی کے لیے بیکار ہوجاتاہے۔ اسی لیے ایسے
پروجیکٹس کی تکمیل ہوتے ہی یہ تمام مشینری جو بہترین حالت میں اور قابل استعمال ہوتی ہے،
ارزاں نرخوں پر فروخت کردی جاتی ہے۔مگر ناٹو نے یہ اصول افغانستان میں نہیں اپنایا۔ وہ اپنا
اسکریپ بھی یورپ لے گئے۔ اس کی ایک دلیل یہ دی گئی کہ امریکی اور یوروپی کمپنیاں اپنی
ٹیکنالوجی کی چوری سے خوف زدہ ہیں ، اس لیے وہ بھاری اخراجات کرکے اپنا اسکریپ بھی
واپس لے جاتے ہیں۔ کہاں ایک طرف اتنی احتیاط کہ یہ فوجی سازوسامان افغانستان میں اپنی کٹھ
پتلی حکومت یا دہشت کے خلاف جنگ میں معاون پاکستانی حکومت کو دینے کے بجائے اربوں
ڈالر کے اخراجات کرکے واپس لے جایا جارہا ہے ۔ افغانستان کی فوجی ضروریات کو پورا
کرنے کے لیے اس کو مزید کروڑوں ڈالر کے فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں اور کہاں یہ غیر ذمہ
داری کہ دو سال پہلے کے اعدادو شمار کے مطابق ساڑھے چھ ہزار ٹرالر اپنی منزل پر نہیں
پہنچ سکے۔ اب تک یہ تعداد یقینا آٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہوگی۔ اس چوری یادرست لفظ
گمشدگی ہے کے بارے ایک اور دلچسپ حقیقت کہ یہ تمام وارداتیں پاکستان کے علاقے میں ہی
ہوئی ہیں۔

اتنی اہمیت کے سازوسامان جو اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کے بھی حوالے نہیں کیا جارہا، کی
چوری پر آخر ناٹو قیادت پریشان کیوں نہیںہے؟ یہ وہ ملین ڈالر کا سوال ہے جس کے جواب سے
بہت ساری گتھیاں سلجھ سکتی ہیں۔

آج کے جدید دور میں اس قسم کی چوری اور اتنے بڑے پیمانے پر کارروائی ناممکن ہے۔ ان
کنٹینرز پر جی پی ایس کی سم لگی ہوتی ہے جس سے اس کی ایک ایک لمحہ کی حرکت مانیٹر
کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ابھی تک ناٹو قیادت نے ٹرانسپورٹیشن کے ذمہ داروں کے خلاف
نہ تو کوئی انضباطی کارروائی کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ حتیٰ کہ ناٹو نے
اس بنیاد پر کسی ایک ٹرالر کے کنٹریکر سے اپنا معاہدہ بھی منسوخ نہیں کیا ہے۔ اس کے
برخلاف ان ٹرالر مالکان کو گمشدہ سامان کی بھی ٹرانسپورٹیشن کی بھی ادائیگی کی جاتی رہی
ہے۔ ان حقائق سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ یہی کہ اسلحہ سے بھرے کنٹینرز اور بکتر بند گاڑیوں کی
گمشدگی میں خود ناٹو قیادت کی مرضی شامل ہے۔وہ امریکی جوپاک افغان قبائلی علاقے سے
یوسف رمزی اور ایمل کانسی کو ایسے ڈھونڈھ نکالتے ہیں جیسے مکھن میں سے بال، وہ اپنے
فوجی سازوسامان کی ترسیل میں اتنے بڑے پیمانے پرگمشدگی پر پراسرار طور پر خاموش۔ یہ
بات سمجھ میں نہیں آتی۔

بات سیدھی سی اور آسان سی ہے کہ یہ قیمتی فوجی گمشدہ ساز وسامان ہمارے لیے گمشدہ ہے
امریکیوں یا اتحادیوں کے لیے نہیں۔ یہ کنسائنمنٹ وہیں پر پہنچ رہا ہے جہاں پر وہ چاہتے ہیں۔یہ
ڈلیوری پاکستانی قبائلی علاقے میں بھی ہورہی ہے، بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی اور
سندھ کے دہشت گردوں کو بھی۔ سمجھ لیجیے کہ اس گمشدہ سامان میں صرف ہلکے اور بھاری
ہتھیار اور ان کا ایمونیشن ہی نہیں ہے بلکہ اس میں فوجی جیپیں، بکتر بند گاڑیاں اور رات میں
دیکھنے کے آلات وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آخر اس سامان کا بلوچستان یاسندھ میں کیا
مصرف ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح شام میں باغیوں کو ایک باقاعدہ فوج سے لڑائی
سے پہلے جس طرح مسلح کیا گیا ہے، بالکل اسی طرح سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں بھی کیا
جارہا ہے۔ یہ کچھ زیادہ پرانی بات تو نہیں ہے کہ رینجرز نے جب ایک ہفتہ تک لیاری کا
محاصرہ کیے رکھا تو وہاں کے مجرموں نے نہ صرف رینجرز کو اندر نہیں گھسنے نہیں
بلکہ رینجرز کو بھاری نقصان بھی پہنچایا۔ یہ تو کراچی کا حال تھا، ذرا سوچیے کہ اگر سندھ
اور بلوچستان میں فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس کو کس قسم کی
مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا مقابلہ مجرموں کی ایسی فوج سے ہوگا جو لامحدود فنڈنگ
 کے ساتھ ساتھ ایسے فوجی سازوسامان سے مسلح ہوں گے جو پاکستانی فوج کے پاس بھی نہیں
ہوگا۔پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر تو دیکھیے، قبائلی علاقے ہوں، کوئٹہ ہو یا کراچی،
کہیں پر بھی دہشت گردوں کو ایمونیشن کی قلت کا سامنا نہیں ہے۔

بدقسمتی کی بات یہ نہیں ہے کہ امریکا یہ سب کچھ کررہا ہے جس کی جنگ میں پاکستان نے اپنا
 سب کچھ ہاردیا، بلکہ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے ان تمام حقائق سے بہ خوبی اور مکمل طور پر
باخبر ہونے کے باوجود ہماری اپنی ایجنسیاں اس میں معاون ہیں، جو ظاہر ہے اعلیٰ ترین سول و
 فوجی قیادت کی منظوری کے بغیر ناممکن ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اغیار کے ساتھ ساتھ اپنے
 بھی اس سازش میں مکمل طور پر شریک و معاون ہیں۔یہی ان بین الاقوامی سازش کاروں کا
کمال ہے کہ وہ ہر سطح پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول کو یقینی
بناتے ہیں۔ ان بین الاقوامی سازش کاروں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اس دنیا پر ایک
عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام۔ اس دنیا پر ایک بین الاقوامی شیطانی حکومت کے قیام کی
سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار
باش۔
 
 …مسعود انور…


--
--
Be Carefull in Islamic Discussions;
Disrespect (of Ambiyaa, Sahabaa, Oliyaa, and Ulamaa) is an INSTANT BAN
Abuse of any kind (to the Group, or it's Members) shall not be tolerated
SPAM, Advertisement, and Adult messages are NOT allowed
This is not Dating / Love Group, Sending PM's to members will be an illegal act.
 
 
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Karachi-Friends" group.
To post to this group, send email to karachi-Friends@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Karachi-Friends" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
 
 

No comments:

Post a Comment