Tuesday 18 October 2011

[karachi-Friends] RE: دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے

 
 
PELE WAHABIYON KI KHOLTE HAIN

--- On Tue, 10/18/11, Hannan Fawad <Fawad.Hannan@saipem.com> wrote:

From: Hannan Fawad <Fawad.Hannan@saipem.com>
Subject: RE: دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے
To: "Sword of Allah" <sword.of.allah.313@gmail.com>, "syed Ahmed" <qaseem39us@yahoo.com>
Cc: sweetmadina001@gmail.com, "Masjidenabwi yahoogroups" <masjidnabwi@yahoogroup.com>, masjidsalafi@yahoogroups.com, masjidulfajr@yahoogroups.com, MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com, "Cafe_Hyderabad Group" <cafe_hyderabad@yahoogroups.com>, cafe_pakistan@yahoogroups.com, "peshawar lahore" <Peshawar_Lahore_Karachi@yahoogroups.com>, "DFS342 45GF" <karachi_ancholi@yahoogroups.com>, "Karach Yahoogroups" <karachi-@yahoogroups.com>, "Karachi 786" <karach-786@yahoogroups.com>, karachi_dubai@yahoogroups.com, karachi-Friends@googlegroups.com
Date: Tuesday, October 18, 2011, 1:16 AM

Chaloo aek kaam karoo, apnay sub sai baray peer AHMED RAZA KAHAN  KEE qabar khool ker uss kee video bana ker humain send kerdoo, ager chay tumhara yeh KALA HUZRAT apnee qabar main zinda huwa yeh muraqbay main huwa, yeh namaz perhta huwa milla tu main tumharay hath per bait kerloon ga AUR AGER NAHEE tu tum Allah (Subhan-o-Tallah)  kee Toheed kee taraf loot aana.

 

Aur ager AHMED RAZA KHAN kee qabar kee video nahee dikha saktay tu apnay CHOREE WALAY KHUTMUL BABA kee hee Qabar khulwa doo, Pakistan main uss kee qabar kahan hain, hum tumharay sath chultay hain aur ager uss kay sath bhee Qabar main woo hee mamla hoo raha hooga tu bhee main tumhara hath per bait kerloon ga.

 

Kahoo muzoor hai, ab bhaag mut jana pehlay kaie baar kee tarah jub tumhara naam hum nay BHAGOORA SYED rakh diya tha.

 

 

 

 


From: Sword of Allah [mailto:sword.of.allah.313@gmail.com]
Sent: Monday, October 17, 2011 4:08 PM
To: syed Ahmed
Cc: sweetmadina001@gmail.com; Masjidenabwi yahoogroups; masjidsalafi@yahoogroups.com; masjidulfajr@yahoogroups.com; MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com; Cafe_Hyderabad Group; cafe_pakistan@yahoogroups.com; peshawar lahore; DFS342 45GF; Karach Yahoogroups; Karachi 786; karachi_dubai@yahoogroups.com; karachi-Friends@googlegroups.com
Subject: Re: دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے

 


اتباع سنت




الحمد للہ رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد ! فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً [النساء : 115]

جب انسان دين اسلام کو قبول کرتا ہے تو اسلام کو قبول کرنے کےليے جو ايک بنيادي چيز ہے وہ شہادتين کا اقرار ہے۔ نطق بالشہادتين يعني اللہ رب العالمين کے الہ واحد ہونے کا يقين اور امام الانبياء جناب محمد مصطفيٰ ﷺ کے نبي آخر الزماں ہونےکايقين کرلينے کے بعد اس يقين کو اپني زبان سے بيان کرے، اس کا اقرار کرے کہ ميں نے اپنے دل سے اللہ تعاليٰ کو معبود برحق اور امام الانبياء جناب محمد مصطفيٰﷺ کو اللہ کا بندہ اور رسول تسليم کرليا ہے ۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ کي گواہي کے ساتھ اشہد ان محمدا رسول اللہ کي گواہي بھي اس کو دينا پڑتي ہے۔ ﷺ۔ اللہ تعاليٰ کو الہ ماننے کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کو مکمل طور پر انسان اپني ساري زندگي سونپ دے کہ اللہ تعاليٰ جو ميري زندگي کے متعلق فيصلہ فرمائيں گے، اسي کے متعلق ميں زندگي گزاروں گا اور کسي بھي رسول يا نبي کي نبوت ورسالت کو تسليم کرنے کا معني يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے زندگي گزارنے کا جو طريقہ کار مجھے اس نبي اور رسول کے ذريعے سے سمجھايا ہے ، ميں اس کے آگے اپنے سر تسليم کو خم کرتا ہوں۔ يعني لا الہ الا اللہ کا معني اللہ تعاليٰ کي فرمانبرداري ہے اور محمد رسول اللہﷺ کا معني امام الانبياء جناب محمد مصطفيٰﷺ کي سنتوں اور سيرت کي اتباع اور پيروي کرنا ہے۔ اور اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے اہل ايمان کو حکم ديا ہے
" وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا [الحشر : 7" کہ تمہيں رسول اللہﷺ جو کچھ ديں اسے قبول کرلو اور جس سے وہ منع کرديں اس سے رک جاؤ۔ يعني جس کام کے کرنے کا حکم اللہ کے رسول اللہﷺ نے ديا ہے ،ا س کو بجا لانا ہے۔ اور جس کام کے کرنے سے منع کيا گيا ہے اس کام سے فوراً رک جانا ہے۔ يہ اللہ رب العالمين کے حکم کا تقاضا ہے۔ اور پھر ، اسي طرح اللہ سبحانہ وتعاليٰ فرماتے ہيں: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً [النساء : 115]" کہ جو آدمي حق اور ہدايت کے واضح ہوجانے کے باوجود ، نبي کريمﷺ کے فرامين کا پتہ چلنے کے باوجود آپﷺ کي سنت وسيرت اور آپ کے اسوہ حسنہ کو معلوم کرلينے کے باوجود اس کي مخالفت کرتا ہے اور اہل ايمان کے راستے کو چھوڑ کرکسي اور راستے پر چلتا ہے " نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى " پھر جس جانب اس کا منہ آئے گا ، ہم اسي جانب اس کو پھير ديں گے، اوروَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ " بالآخر اس کو جہنم ميں داخل کريں گے اور " وَسَاءتْ مَصِيراً [النساء : 115]" اوريہ بہت بري لوٹنے کي جگہ ہے۔يعني رسول اللہﷺ کي سنت سے انحراف انسان کو جہنم ميں لے جانے کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: " وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ "کسي مؤمن مردکےليے اور کسي مؤمن عورت کےليے يہ بات ہرگز زيبا نہيں ہے ، جائز نہيں ہے کہ جب " إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً "جب اللہ رب العالمين اور امام الانبياء جناب محمد مصطفيٰﷺ کسي کام کا فيصلہ کرديں ، کوئي حکم صادر فرماديں، کسي بارے ميں کوئي رائے اور مشورہ دے ديں اور کوئي ايک خاص لائحہ عمل متعين فرماديں، ان کےليے يہ بات روا اور جائز نہيں رہتي ہے کہ "أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ[الأحزاب : 36] "وہ اپنے معاملے کے اندر اپنے ليے کوئي حق محفوظ رکھيں۔يہ قطعاًان کےليے جائز نہيں۔ بلکہ جو اللہ تعاليٰ نے فيصلہ کرديا ہے ، رسول اللہﷺ نے جو حکم صادر فرماديا ہے، وہي حرف آخر ہے، اسي پر ہي عمل پيرا ہونا ان پر واجب اور فرض ہوجاتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں"فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً [النساء : 65]" آپ کے رب کي قسم ہے يہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہيں بن سکتے ہيں حتي کہ آپس کے جھگڑوں ميں ، باہمي تنازعات ميں آپ ﷺ کو فيصل نہ مان ليں۔ " وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً " اور آپ کے فيصلے کو ، آپ کے حکم کو دل وجان سے تسليم کريں، سر تسليم کو خم کرديں۔ اور اپنے دل ميں کسي قسم کا کوئي حرج اور تنگي بھي نہ رکھيں۔ نبي کريمﷺ کي سنت کو ايک آدمي اپناتا ہے، آپ کے طريقہ کار کو مانتا ہے ، اس پر چلتا ہے ليکن دل کے اندر کچھ حرج اور تنگي اگر محسوس کرتا ہے تو يہ بندہ بھي مؤمن نہيں ہے۔ مؤمن وہ بندہ بنے گا جو رسول اللہﷺ کے فيصلے کو دل کي خوشي سے مانے ۔ فيصلہ مانتا ہے ، تسليم کرتا ہےليکن اس کا دل اس فيصلے پر خوش اور راضي نہيں ہے تو اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں : " فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ " آپ کے رب کي قسم ہے يہ ايمان والے ہو ہي نہيں سکتےحَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ " جو آپ نے فيصلہ کرديا ہے ، حکم صادر فرما ديا ہے ، اس پر چلتے ہوئے يہ اپنے دلوں ميں کچھ ذرا سي بھي ميل نہ رکھيں۔ جب ان کے دلوں کي يہ کيفيت ہوجائے گي تب يہ مؤمن ہوجائيں گے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہيں" لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ (السنۃ لابن أبي عاصم ص 5)"تم ميں سے کوئي بندہ اس وقت تک مؤمن نہيں ہوسکتا جب تک اس کي خواہشات ، اس کے خيالات ميري لائي ہوئي شريعت کے تابع نہ ہوجائيں۔ انسان کا عمل ظاہراً وہ اللہ تعاليٰ کے دين کے تابع ہے، رسول اللہﷺ کے فرمودات کے مطابق ہے۔ ليکن اس کے دل ميں اٹھنے والي خواہشات، وہ آرزوئيں، جو اس کے دل ميں کروٹيں ليتي ہيں، اگر وہ بھي اللہ تعاليٰ کي نازل کردہ شريعت اور محمد مصطفيٰ ﷺ کے لائے ہوئے دين کے تابع نہ ہوں تو وہ بندہ کامل ايمان والا نہيں ہوسکتا۔ يعني رسول اللہﷺ کي سنت کا اتباع کرنا ، سنت کي پيروي کرنا ، ايک پکے مسلم اور مؤمن ہونے کےليے ضروري ہے۔ جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کے فرامين کي پيروي نہيں کرتا ہے ، آپ کے طريقہ کو نہيں اپناتا ہے، اس وقت تک وہ مسلم يا مؤمن کہلوانے کا حقدار نہيں بنتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں : "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ[الأحزاب : 21] "جو بندہ آخرت والے دن پر اور اللہ تعاليٰ پر يقين رکھتا ہے، اس آدمي کےليے رسول اللہﷺ ميں بہترين نمونہ ہے۔ امام الانبياء محمد مصطفيٰ اس آدمي کےليے اسوہ کاملہ ہيں۔ اسوہ حسنہ ہيں، بہترين نمونہ ہيں، وہ اپني زندگي کے شب وروز اور ليل ونہار امام الابنياء محمد مصطفيٰ ﷺ کے فرامين اور سنت و سيرت کے مطابق گزارنے والا بن جائے۔ رسول اللہﷺ جب بھي خطبہ ديتے ، ارشاد فرماتے : "فان خير الحديث کتاب اللہ " باتوں ميں سے بہترين بات کتاب اللہ کي بات ہے۔اللہ رب العالمين نے اپني کتاب ميں جو باتيں کہي ہيں وہ سب سے بہترين باتيں ہيں، وہ حديث سب سے بہتر حديث ہے ، سب سے اعليٰ ترين باتيں ہيں۔ "وخير الہدي ہدي محمد ﷺ"اور جتنے بھي طريقہ ہائے کار ، زندگي کو گزارنے کےليے اس دنيا ميں رائج ہيں، ان سب طريقوں سے بہتر طريقہ امام الانبياء جناب محمد مصطفيٰ ﷺ کا طريقہ ہے۔ "وشر الامور محدثاتہا" اور پھر وہ لوگ جو زندگي گزارنے کےليے اپنے ہي طريقہ ہائے کار ايجاد کرتے ہيں، وہ بدترين کا م ہيں۔ "وکل محدثۃ بدعۃ" اور ايسے نو ايجاد طريقہ ہائے کار بدعت کہلاتے ہيں اور بدعت گمراہي ہے اور گمراہياں جہنم ميں لے جاني والي ہيں۔ اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتے ہيں: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً [الأحزاب : 70] "اے ايمان والو! اللہ تعاليٰ سے ڈر جاؤ۔" وَقُولُوا قَوْلاً سَدِيداً "اور درست بات کہا کرو۔ "يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ "اللہ تمہارے اعمال کي اصلاح کردے گا۔اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔"وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً[الأحزاب : 71]"اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کي اطاعت کرتا ہے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کہا مانتا ہے ، "فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً [الأحزاب : 71]" وہ فوز عظيم حاصل کرليتا ہے۔ بہت بڑي کاميابي کو پاليتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: اللہ اور اس کے رسولﷺ کي اطاعت کرو۔ "وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ [محمد : 33]" اپنے اعمال کو باطل نہ کربيٹھنا۔ يعني اللہ اور اس کے رسولﷺ کي جو آدمي اطاعت نہ کرے ، خدشہ ہے کہ اس کي زندگي کي ساري کمائي تباہ وبرباد ہوجائے گي۔ اللہ اور اس کے رسول کي اطاعت کرو ، اللہ کے فرامين پر عمل کرو، رسول اللہﷺ کے سنتوں کا اتباع کرو، "وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ[محمد : 33]"اپنے اعمالوں کو باطل نہ کربيٹھنا۔رسول اللہﷺ کي سنت اگر چھوڑي جائے گي تو انسان اپنے اعمال سے ہاتھ دھو بيٹھے گا۔پھر اس کےليے کام آنے والا کوئي عمل باقي نہ بچے گا۔نبي مکرمﷺ کے فرامين، آپ کي سنت مطہرہ اہل اسلام کےليے بہترين مشعل راہ ہے۔يہي وہ اسوہ حسنہ ہے، يہي وہ طريقہ کار ہے، جو اللہ رب العالمين نے پسند کيا ہے،اور ہمارے ليے ايک نمونہ بنا کر بھيج ديا ہے۔اور پھر صحابہ کرام نے آپ کي سنتوں پر، آپ کے احکامات اور فرامين پر عمل کرکے دکھايا اوراللہ تعاليٰ نے ان کي زندگيوں کو ہمارے ليے معيار اور نمونہ قرار دے ديا۔ رسول اللہﷺ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے ہيں، کچھ لوگ مسجد ميں کھڑے ہيں، آپ نے حکم ديا: بيٹھ جاؤ۔عبداللہ رضي اللہ عنہ ابھي مسجد کے دروازے پر ہيں، ايک قدم دہليز کے اندر ہے، ايک باہر ہے، وہ وہيں پر بيٹھ گئے۔اس بات کا انتظار نہيں کيا کہ ميں دوسرا قدم اُٹھا کر مسجد کے اندر رکھ لوں۔پھر بيٹھتا ہوں، رسول اللہﷺ کي آواز جونہي سني، وہيں پر فوراً بيٹھ گئے۔ يہ ہے سنتوں کي اتباع کرنے کا ، رسول اللہ ﷺ کے فرامين پر عمل کرنے کا طريقہ کار۔کہ جب پتہ چل جائے، علم ہوجائے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کي منشا يہ ہے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم يہ ہے، آپ کا فرمان يہ ہے، نبي کريمﷺ کي سنت اور طريقہ کار يہ ہے ، پھر اس کے بعد کئي عذر، بہانہ تراشنے کي کوشش نہ کي جائے، بلکہ فوراً سرتسليم خم کرديا جائے۔ يہ نبي محترم ﷺ کي سنتوں پر عمل پيرا ہونے کا تقاضا ہے اور رسول اللہﷺ کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کي اتباع کي جائے، آپ کي پيروي کي جائے، آپ کے اسوہ اور آپ کي سيرت وصورت کو اپناي جائے، اور پھر ، اللہ تعاليٰ نے ان لوگوں کے ايمان ہمارے ليے معيار قرار ديا اور فرمايا"فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [البقرة : 137]" کہ اگر يہ لوگ ويسے ہي ايمان لے آئے جيسا کہ صحابہ کرام کي جماعت امام الانبياء جناب محمد مصطفيﷺ پر ايمان لائي ہے " فَقَدِ اهْتَدَواْ "پھر يہ لوگ ہدايت يافتہ بنيں گے، وَّإِن تَوَلَّوْاْ "اور اگر ان کا ايمان ويسا نہ ہوا، يہ اپنے ليے حيلے بہانے تلاش کرتے رہے،"فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ " پھر يہ واضح طور پر مخالفت کے اندر مبتلا ہيں،فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّهُ "پھر آپ کو اللہ تعاليٰ ان سے کافي ہوجائے گا " وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [البقرة : 137] "اور وہ خوب سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين کے ايمان کو اللہ تعاليٰ نے معيار قرارديا ہے کہ جس طرح يہ لوگ رسول اللہﷺ پر ايمان لائے ، ويسے ہم لوگ اللہ کے رسول ﷺ پر ايمان لائيں۔اور ان کا ايمان رسول اللہﷺ پر کيا عب تھا، کہ نبي محترم ﷺ کا فرمان سنتے ہيں اور فوراً اپني اصلاح کرليتے ہيں، سيدنا عمر ابن الخطاب ، عمر فاروق رضي اللہ عنہ اعلان رديتے ہيں، کہ کوئي شخص حج تمتع نہ کرے۔ حج اور عمرہ اکھٹا کرنا۔يعني عمرہ کا احرام باندھ کر جائے آدمي، جاکرعمرہ کرے، قرباني ساتھ نہ لے کر جائے اور احرام کھول دے، اس کے بعد حج کےدنوں ميں دوبارہ احرام باندھے، حج کرے اور وہيں سے قرباني خريد کر قرباني دے۔اور اگر قرباني خريدنے کي استطاعت نہ ہوتو دس رزے رکھے۔ تين وہيں پر اور سات گھر آکر، اس کو حج تمتع کہتے ہيں۔ سيدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ نے لوگوں کو حج تمتع کرنے سے منع کرديا، تاکہ مکہ کے اندر رونق لگي رہے، لوگ آتے ہيں ، حج تمتع کرکے چلے جاتے ہيں، حجاور عمرہ اکھٹا کرليتے ہيں، پھر کچھ عرصہ کےليے تعطل آجاتا ہے، حرم کي رونقيں ختم ہوجاتي ہيں۔امير المؤمنين عمر فاروق رضي اللہ عنہ يہ اعلان کرتے ہيں، ان کے بيٹے عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہ وہ حج تمتع کا احرام باندھتے ہيں، اور حج تمتع کا تلبيہ کہتےہيں۔ لوگوں نے کہا: کہ امير المؤمنين نے حج تمتع کرنے سے منع کيا ہے اور حج تمتع کرنے کا احرام باندھنے لگے ہيں۔ کہنے لگے: "أ مر ابي يتبع ام امرر سول اللہﷺ"[حجة الوداع لابن حزم 454]کيا ميرے باپ کي بات ماني جانے کے لائق ہے يا امام اانبياء جناب محمد مصطفي ﷺ کي بات؟ يعني بيٹےنے اپنے باپ کي واضح ترين مخالفت کي۔کہ يہ ميرے باپ کا سہو ہے ، اس سے غلطي ہوئي ہے، اتباع کےلائق محمد رسول اللہﷺ ہيں۔ اور جب باپ کو پتہ چلتا ہے تو فوراً رجوع کرليتے ہيں کہ ہاں امر رسول ﷺوہ اتباع کے زيادہ لائق ہے۔ حج تمتع کرنا رسول اللہﷺ نے جائز قرار ديا ہے۔عمر اس سے منع نہيں کرتا۔ اپني غلطي پر اڑے رہنے والے نہ تھے۔ بلکہ علم ہوجانے کے بعد رجوع کرنے والے ، واپس پلٹنے والے تھے۔ اسي ليے اللہ تعاليٰ نے ان کےليے کہا: "رضي الله عنهم ورضوا عنه"اللہ ان سے راضي ہے يہ اللہ سے راضي ہوگئے۔اہل بدر کے بارے ميں فرمايا: " لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدْ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ [صحيح بخاري كتاب الجهاد والسير باب في الجاسوس حـ 3007]" تم جو چاہتے ہو کرو ميں نے تمہيں معاف کرديا۔ اللہ رب العالمين نے انہيں دنيا ميں ہي جنتوں کي بشارتيں ديں۔اور معافيوں کے پروانے ديے۔اس ليے کہ يہ لوگ رسول اللہﷺ کے فرامين کے آگے سر تسليم خم کرنے والے، گردنوں کو جھکانے والے ، آپ ﷺ کي سنتوں کو مضبوطي سے پکڑنے والے اور اس پر کاربند رہنے والے لوگ تھے۔اور يہ مطالبہ صرف انہي پاک باز ہستيوں سے نہ تھا، بلکہ ہر کلمہ پڑھنے والے سےاللہ رب العالمين کا يہي مطالبہ ہے۔ " أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ "اللہ کي اطاعت کرو اور اس کے رسول کي اطاعت کرو، وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ [محمد : 33] " کہيں اپنے اعمال کو باطل نہ کر بيٹھنا، اگر تم نے رسول اللہﷺ کي مخالفت کيوَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيراً [النساء : 115] " رسول اللہ ﷺ کي مخالفت کي ، ان کي نافرماني کي، اہل ايمان کے رستے کو چھوڑا، پھر جس راستے پر وہ چلے گا، ہم اس کو اسي راستے پر چلائيں گے اور بالآخر اس کو جہنم کا ايندھن بناديں گے۔ ايک آدمي ہے اس کو کسي معاملے ميں اللہ تعاليٰ کے فرمان کا علم نہيں ہے، رسول اللہﷺ کي سنت کا علم نہيں ہے ، وہ اس معاملے ميں غلطي پر ہے، اس کا تو معاملہ ہي عليحدہ ہے، وہ تو جاہل ہے۔ جہالت ہے اس کے اندر، اس کے پاس عذر موجود ہے کہ اس کو حقيقت کا علم نہ ہوسکا، اللہ کے فرمان کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کو نبي محترم ﷺ کي سيرت وسنت کا پتہ نہ چل سکا۔ وہ غلطي کررہا ہے تو اس کا معاملہ تو عليحدہ ہے۔ ليکن جس کو پتہ چل گيا، علم ہوجانے کے باوجود، پتہ ل جانے کے باوجود وہ اپني غلطي پر اڑا رہتا ہے، اپني اصلاح نہيں کرتا ہے، اپني زندگي ميں تبديلياں پيدا نہيں کرتا ہے، نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى "پھر جس جانب وہ پھرا ہے ، ہم اس کو اسي جانب ہي پھيريں گےوَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ "اور اس کا جہنم ميں داخل کريں گے" وَسَاءتْ مَصِيراً [النساء : 115] "اور وہ بہت بري لوٹنے کي جگہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کي نافرماني بسا اوقات اتني بڑھ جاتي ہے ، اتني بڑھ جاتي ہے کہ بندہ ہميشہ ہميشہ کےليے جہنم کا ايندھن بن جاتا ہے، اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: " وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً [الجن : 23] "جو بندہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کي معصيت کرتا ہے،نافرماني کرتا ہے، وہ ہميشہ ہميشہ جہنم ميں رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ کي سنتوں کو چھوڑنے کا يہ بہت بڑا نقصان ہے۔ ليکن صد حيف ! صد افسوس! آج کے ہمارے اس دور ميں آپ کو کچھ لوگ ايسے بھي مليں گے جو کہتے ہوئے نظر آئيں گے کہ رسول اللہﷺ کي سنتيں صرف ستائيس يا انتيس ہيں۔ حالانکہ اللہ تعاليٰ فرمار ہے ہيں: " وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ "جو بھي رسول اللہﷺ تمہيں ديتے ہيں اس کو پکڑ لو، وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا " جس سے بھي منع کرتے ہيں ، رک جاؤ۔رسول اللہﷺ کے ہر فعل پر عمل کرنا اور آپ کے ہر قول پر عمل کرنا وجب اور فرض ہے۔اور ايک ٹولہ ايسا بھي ہے جو سرے سنت وحديث کا انکاري ہے۔ کہتے ہيں: جو کچھ قرآن مجيد فرقان حميد ميں ہے ، يہي کافي ہے۔اس کے علاوہ سنت کي کوئي تشريعي ، شرعي حيثيت ہے ہي نہيں۔ نتيجتاً نہ وہ نمازيں پڑھتے ہيں، نہ روزے رکھتے ہيں، نہ زکاۃ ادا کرتے ہيں، پرويزيوں کا گروہ آج بھي آپ کے گرد ونواح ميں موجود ہے۔ پھر ستم بالائے ستم وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کي سنتوں کو اپنانے کے دعويدار ہيں ، ان کا حال بھي بڑا پتلا ہے، جو من ميں آتا ہے مان ليتے ہيں جو من ميں نہيں آتا ہے ، نہيں مانتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: " أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ "کيا تم کتاب کے کچھ حصے پر ايمان لاتے ہو اور کچھ حصے پر ايمان نہيں لاتے ہو، کچھ باتيں مانتے ہو اور کچھ کو چھوڑ ديتے ہو، " فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ " تم ميں سے جو بھي ايسا کرے گا اس کي جزا اور اس کا بدلہ صرف اور صرف کيا ہے؟إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا " دنيا ميں رسوا ہوجائے گاوَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ "اور قيامت کے دن سخت ترين عذاب سے دوچار کيا جائے گا۔ " وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [البقرة : 85] " جو تم عمل کررہے ہو، اللہ تعاليٰ اس سے غافل نہيں ہے۔آج من حيث القوم، من حيث الامہ مسلمانوں کي ذلت اور پستي کے جہاں اور بڑے اسباب ہيں، وہيں ايک بڑا اور بنيادي سبب ايک يہ بھي ہے۔کہ آج مسلمانوں نے اللہ تعاليٰ کے فرامين ميں سے اور امام الانبياء جناب محمد مصطفي ﷺ کي سنتوں ميں سے صرف وہ کچھ اپنايا ہے، جو اس کو پسند لگا۔ جس سے اس کے معاملات پر کوئي زدنہ آتي ہو۔ جس سے اس آدمي کے مفادات کو ٹھيس نہ پہنچتي ہو، وہ اپنائے ہيں۔ اور نبي ﷺ کي وہ سنتيں ، اللہ تعاليٰ کے و فرامين جن کي بناء پر يہ انسان پريشانيوں سے دوچار ہوسکتا تھا، اس نے اسے چھوڑ ديا ہے۔اللہ تعاليٰ کے احکامات ميں سے بعض کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا يہ بھي امت کي زلت ورسوائي کا سبب ہے۔ اللہ تعاليٰ نے قرآن مجيد ميں بيان کيا ہے۔ جو ايسا کر گا، کچھ کو مانے گا ، کچھ کو نہ مانے گا، کچھ پر عمل پيرا ہوگا اور کچھ کو ترک کردے گا، خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا " دنيا ميں رسوائي ملے گيوَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ " اور قيامت کے دن سخت ترين عذاب سے دوچار کيے جائيں گے ۔ اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کي اطاعت کرليں " وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِيماً [الأحزاب : 71] "وہ لوگ بہت بڑي کاميابي کو پالينے والے ہيں۔ ان کےليے اللہ تعاليٰ نے جنتوں ميں انعامات تيار کرکھے ہيں، ان کےليے اللہ تعاليٰ نے نعمتوں کا وعدہ کيا ہے۔شرط يہ ہے کہ وہ اپني زندگي کو رسولاللہﷺ کي سنتوں کے تابع کرليں۔ اللہ رب العالمين سے دعا ہے کہ اللہ تعاليٰ ہميں ان لوگوں ميں شامل فرمائے جو رسول اللہﷺ کے فرمودات ، آپ کي سنت، آپ کي سيرت اور اسوہ حسنہ کو اپنانے والے اور ہر ہر بات پر سر تسليم کو خم کرنے والے ہيں، اور اللہ تعاليٰ ہميں ان لوگوں ميں سے نہ کردے جو رسول اللہﷺ کے فرامين کو يکسر جھٹلا ديتے ہيں يا کچھ کو مانتے ہيں اور کچھ سے روگرداني کرتے ہيں۔

وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

 

 

 

2011/10/17 syed Ahmed <qaseem39us@yahoo.com>

 

Shytan ki cat,

 

Shura:21 ki khilaf warzi toh tum kharji wahabi sifli najadi ghyr muqallidon ne ki ke Ibn Abdalwahhab najadi ko ARBABAM MIN DOONILLAH BANAYA AOR USEY ISS MANSAB PAR SAMJHA KE WOH HALAL WA HARAM, SHIRK WA BID'AT KA TAY'AIYYUN KAR SAKTA HAI DARAN HALEKE YEH ALLAH HA HAQ HAI. ISS TARAH IBN A'BD KO MANNE WALE SAB MUSHRIK HUWE KE IBN A'BD KE HALAL KO APNA HALAL, USKE HARAM KO APNA HARAM, USKE BATAYE HUWE SHIRK KO APNA SHIRK AOR USKE BATAYI BID'AT KO APNI BID'AT MAAN LIYA------YEHI TOH SHIRK HAI WARNAH KIYA SHIRK KISI KHINZEER KA NAAM HAI O MUSHRIKO NAHINJARO.

--- On Mon, 10/17/11, Sword of Allah <sword.of.allah.313@gmail.com> wrote:


From: Sword of Allah <sword.of.allah.313@gmail.com>
Subject: دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے
To: sweetmadina001@gmail.com
Date: Monday, October 17, 2011, 4:25 AM

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


قرانی آیات اوراحادیث صحیحہ میں چاراصول ایسے بیان ہوئے ہیں کہ اگرکوئی بھی شخص ان اصولوں کو سمجھ لے تودین میں کسی بھی قسم کی بدعت نکالنے کی جرات نہیں کرسکتا خواہ بدعت سیئہ ہویا بدعت حسنہ ، ذیل میں یہ چاروں اصول قران وحدیث کے دلائل کے ساتھ پیش خدمت ہیں:

پہلااصول 
دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے


قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } [الشورى: 21]
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ دین بنانا اوراحکام دین مقررکرنا یہ صرف اللہ کا حق ہے، اوراگرکوئی شخص اللہ کے علاوہ یہ حق کسی دوسرے انسان کو بھی دیتا ہے تو وہ اللہ کے حق میں کسی اورکو شریک مانتاہے، ایسا شخص ظالم ہے اوراللہ نے اس کے لئے دردناک عذاب تیار کررکھاہے۔
اس آیت سے یہ اصول واضح‌ ہوگیا کہ دین بنانا صرف اورصرف اللہ کا حق ہے۔
نیزاللہ تعالی کا ارشادہے:
{ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ} [التوبة: 31]
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔

اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل روایت ملتی ہے:
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ» ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ» 
[سنن الترمذي ت شاكر (5/ 278) رقم 3095 - حكم الألباني : حسن]صحابی رسول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا (اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ)، (انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔

معلوم ہوا حلال وحرام کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کا ہے یہی حق اگرکوئی کسی اورکے اندرتسلیم کرتاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ اس نے اس کواپنا رب بنالیاہے اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ علمائے دین بھی دین میں بدعت حسنہ کا اضافہ کرسکتے ہیں ،کیونکہ دین میں کوئی بھی چیزمقررکرنا صرف اللہ کا حق ہے اس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں‌ ہے۔

حدیث‌ سے دلیل:
بخاری میں معراج رسول سے متعلق صحابی رسول ابوذررضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ مذکورہے کہ :
۔۔۔۔
فَفَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا۔۔۔الحدیث 
[صحيح البخاري (1/ 79)رقم 349 ]
۔۔۔اللہ تعالی نے میری امت پرپچاس وقت کی نمازفرض کی ،پھرمیں اسے لیکرواپس ہوا یہاں تک کہ موسی علیہ السلام کے پاس سے گذرہوا توانہوں نے کہا :اللہ تعالی نے آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی ہے؟تومیں نے کہا:پچاس وقت کی نمازفرض کی ہے ، موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحدیث۔

قارئین بخاری کی اس حدیث میں غورکیجئے اس سے ثابت ہوتاہے کہ دین بنانے کا حق توکسی نبی کوبھی نہیں دیاگیاہے عام علماء کا اس کا حقدارہونا تودورکی بات ہے ۔ کیونکہ موسی علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم آپ نمازکی تعدادکوپچاس کے بجائے کم کردیجے بلکہ یہ کہا کہ آپ اللہ کے پاس واپس جائیے اوراللہ سے یہ تعدادکم کرائیے ، اوریہ مشورہ کئی باردیا۔
ساتھ ہی اس حدیث‌ سے بدعت حسنہ کی جڑبھی کٹ جاتی ہے ، یعنی کسی عالم یا ولی کے لئے جائزنہیں کہ وہ کوئی کام اچھا سمجھ کردین میں اپنی پسندسے داخل کردے۔
اگرایساجائزہوتاتوموسی علیہ السلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ کے پاس نہ بھیجتے بلکہ خود ہی پچاس وقت کی نماز کو کم کرنے کا مشورہ دیتے ۔
غورکریں کی دوجلیل القدرنبی موسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھا سمجھ رہے تھے کہ نمازپچاس وقت سے کم ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجودبھی انہیں اختیارنہیں کہ کسی چیز کو اچھا سمجھ کراپنی طرف سے دین بنالیں۔
نیز جب اللہ تعالی نے پچاس وقت کی نمازکوکم کرکے پانچ وقت کردیا تواس کے بعدبھی موسی علیہ السلام نے یہ اچھامشورہ دیا کہ ابھی بھی مزید کم کرائیے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مشورہ کواچھا سمجھا ،اسے غلط نہیں قراردیا، بلکہ یہ کہا کہ اب مزید کم کرانے سے مجھے شرم آتی ہے۔
گویاکہ نماز پانچ وقت سے بھی کم ہونی چاہئے یہ چیز موسی علیہ السلام اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی نظرمیں اچھی تھی لیکن ان دونوں انبیاء کے اچھا سمجھنے کے باوجودیہ چیز دین اس لئے نہ بن سکی کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ نہیں تھا۔

معلوم ہواکہ انبیاء علیہ السلام حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا اختیارنہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیزکواچھا سمجھ کردیں میں داخل کریں اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے دین کی کوئی تعلیم نہیں پیش کی ہےبلکہ پورادین اللہ کا بنا یا ہواہے اوراسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے امت تک پہنچایا ہے، اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[النجم: 3، 4]
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔

الغرض قران وحدیث‌ کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہواکہ دین بنانے کا حق صرف اللہ کوہے اوراس معاملے میں انبیاء تک کویہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے اچھا سمجھتے ہوئے دین میں کوئی بات داخل کریں توپھردیگرانسانوں کویہ حق کہاں سے مل سکتاہے؟؟؟

دوسرا اصول 
اللہ اپنا یہ حق ادا کرچکاہے



اس سے پہلے بتلایا گیا کہ دین بنانا یہ صرف اللہ کا کام ہے، اب یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالی اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے، اس میں کسی اورکے کرنے کے لئے کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے،قران وحدیث‌ سے اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ[المائدة: 3]
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا ۔

اس آیت سے معلوم ہواکہ دین بنانا جواللہ کا کام تھا تو اللہ اپنا یہ کام مکمل کرچکاہے۔

حدیث سے دلیل:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ , وَلَيْسَ شَيْءٌ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ , وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ 
[شعب الإيمان (13/ 19) رقم 9891 صحیح بالشواہد:انظرالصحیحۃ رقم1803ایضا رقم2866]
صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا : کوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں ہے جوتمہیں جنت سے قریب کرے اورجہنم سے دورکریے مگرمیں تمہین اس کا حکم دے چکاہوں ، اورکوئی بھی ایسی چیزباقی نہیں جوتمہین جہنم سے قریب کرے اورجنت سے دورکرے مگرمیں تمہیں اس سے منع کرچکاہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دین کی تکمیل کردی ہے۔
لہٰذا جب دین مکمل ہوچکا ہے ، اس میں اضافہ کے لئے کچھ باقی ہیں نہیں‌ بچا ہے توپھریہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپنی طرف سے اچھا سمجھ کردین میں کوئی نئی چیز داخل کی جائے۔

تیسرا اصول 
اللہ نے کسی اورکو یہ کام کرنے سے منع کردیاہے



قران وحدیث میں جہاں یہ اصول بتلایا گیا ہے کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ،اوراللہ اپنا یہ حق ادا کرچکا ہے وہیں ایک تیسرا اصول بھی پیش کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں یہ کام انجام دینے سے صراحۃ منع بھی کردیا گیاہے۔

قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [الحجرات: 1]
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

اس آیت میں‌ سب کو اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ ورسول سے ایک قدم بھی کوئی آگے بڑھائے ، یعنی اللہ ورسول کے زبانی جودین پیش کیا گیا ہے اس میں اپنی طرف سے کوئی بھی اضافہ نہ کرے۔

حدیث سے دلیل:
صحابی رسول عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
[سنن أبي داود (4/ 201) رقم 4607- حكم الألباني : صحيح]
اے لوگو! تم دین میں نئی چیزیں لانے سے بچو، کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے۔
قران وحدیث سے معلوم ہوا کہ دین میں نئی چیزلانے سے سب کو منع بھی کردیا گیا ہے۔

چوتھا اصول 
اگرکسی نے دین میں کوئی نیا عمل ایجادکیا تووہ عمل مردودہے



قران وحدیث‌ میں جہاں یہ اصول پیش کیا گیا ہےکہ دین بنانا صرف اللہ کا حق ہے، اوراللہ اپنا یہ حق مکمل ادا کرچکا ہے، اوردوسروں کویہ حق اداکرنے سے منع کردیا گیا ہے۔
وہیں پرایک چوتھا اصول یہ بھی ہے کہ اگرکسی نے یہ حق اداکرنے کی کوشش کی یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا عمل ایجاد کیا تواس کا یہ عمل باطل ہے اورمردودہے۔
قران وحدیث‌ سے اس کی دلیل ملاحظہ ہو:
قران سے دلیل:
اللہ تعالی کا ارشادہے:
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ } [محمد: 33]
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو باطل وبرباد نہ کرو۔ 

حدیث سے دلیل:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ» 
[صحيح البخاري (3/ 184)رقم 2697 ]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس معاملے (دین ) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے۔

اس حدیث‌ میں ''امرنا'' سے مراد ''دیننا '' ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں‌ اس کی صراحت ہے ،چنانچہ امام ابوجعفر،محمدبن سلیمان، لوین المصیصی رحمہ اللہ فرماتے :
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي دِينِنَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ»
[جزء لوين (ص: 83)رقم 71 - واسنادہ صحیح ]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جواس میں نہ تھی تووہ مردود ہے۔

معلوم ہواکہ اگرکوئی شخص گذشتہ تینوں اصولی باتوں سے غافل ہوکردین میں کوئی نیا عمل ایجادکرلے تووہ مردودہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگرکوئی شخص یہ چاراصول یعنی یہ چاربنیادی باتیں سمجھ لے تووہ کبھی بھی بدعت ایجادکرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

[1]پہلی بات یہ کہ دین بنانا اللہ کا حق ہے ، اورجب یہ اللہ کا حق ہے تودوسروں کو اس کی اجازت ہرگزنہیں ہوسکتی۔

[2]دوسری بات یہ کہ اللہ اپنا یہ حق اداکرچکاہے یعنی اللہ نے دین مکلمل کردیاہے، لہٰذا جب دین مکمل ہوگیا ہے تواس میں نئی چیزکی گنجائش ہی باقی نہیں ہے۔

[3]تیسری بات یہ کہ تمام لوگوں کو دین میں نئی چیز ایجاد کرنے سے منع کردیاگیاہے، لہٰذا جب یہ چیزمنع ہے تواس کے جوازکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

[4]چوتھی بات یہ کہ اگرکوئی شخص نادانی یا سرکشی کی بناپردین میں نئی چیزایجادکرتاہے تووہ مردودہے، لہٰذا جوچیزمردود ولایعنی ہے اسے ایجاد کرنا حماقت ہے۔
اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو بدعات وخرافات سے بچائے ، آمین۔

 ******************************************************************************************
CONFIDENTIALITY NOTICE
This e-mail and any attachment are confidential and may be privileged or otherwise protected from disclosure. It is solely intended for the person(s) named above. If you are not the intended recipient, any reading, use, disclosure, copying or distribution of all or parts of this e-mail or associated attachments is strictly prohibited. If you are not an intended recipient, please notify the sender immediately by replying to this message or by telephone and delete this e-mail and any attachments permanently from your system.

--
Be Carefull in Islamic Discussions;
Disrespect (of Ambiyaa, Sahabaa, Oliyaa, and Ulamaa) is an INSTANT BAN
Abuse of any kind (to the Group, or it's Members) shall not be tolerated
SPAM, Advertisement, and Adult messages are NOT allowed
This is not Dating / Love Group, Sending PM's to members will be an illegal act.
 
 
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Karachi-Friends" group.
To post to this group, send email to karachi-Friends@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
karachi-Friends+unsubscribe@googlegroups.com

No comments:

Post a Comment